اردو کی کہانی
اُردُو لشکری زبان[8] (یا جدید معیاری اردو) برصغیر کی معیاری زبانوں میں سے ایک ہے۔ یہ پاکستان کی قومی اور رابطہ عامہ کی زبان ہے، جبکہ بھارت کی چھ ریاستوں کی دفتری زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ آئین ہند کے مطابق اسے 22 دفتری شناخت زبانوں میں شامل کیا جاچکا ہے۔ 2001ء کی مردم شماری کے مطابق اردو کو بطور مادری زبان بھارت میں 5.01% فیصد لوگ بولتے ہیں اور اس لحاظ سے یہ بھارت کی چھٹی بڑی زبان ہے جبکہ پاکستان میں اسے بطور مادری زبان 7.59% فیصد لوگ استعمال کرتے ہیں، یہ پاکستان کی پانچویں بڑی زبان ہے۔ اردو تاریخی طور پر ہندوستان کی مسلم آبادی سے جڑی ہے۔[حوالہ درکار] بعض ذخیرہ الفاظ کے علاوہ یہ زبان معیاری ہندی سے قابل فہم ہے جو اس خطے کی ہندوؤں سے منسوب ہے۔[حوالہ درکار] زبانِ اردو کو پہچان و ترقی اس وقت ملی جب برطانوی دور میں انگریز حکمرانوں نے اسے فارسی کی بجائے انگریزی کے ساتھ شمالی ہندوستان کے علاقوں اور جموں و کشمیر میں اسے سنہ 1846ء اور پنجاب میں سنہ 1849ء میں بطور دفتری زبان نافذ کیا۔ اس کے علاوہ خلیجی، یورپی، ایشیائی اور امریکی علاقوں میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے جو بنیادی طور پر جنوبی ایشیاء سے کوچ کرنے والے اہلِ اردو ہیں۔ 1999ء کے اعداد وشمار کے مطابق اردو زبان کے مجموعی متکلمین کی تعداد دس کروڑ ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کی نویں بڑی زبان ہے۔
اُردو کا بعض اوقات ہندی کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے۔ اُردو اور ہندی میں بُنیادی فرق یہ ہے کہ اُردو نستعلیق رسم الخط میں
لکھی جاتی ہے اور عربی و فارسی الفاظ استعمال کرتی ہے۔ جبکہ ہندی زبان دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور سنسکرت الفاظ زیادہ استعمال کرتی ہے۔ کچھ ماہرینِ لسانیات اُردو اور ہندی کو ایک ہی زبان کی دو معیاری صورتیں گردانتے ہیں۔ تاہم، دیگر ماہرین اِن دونوں کو معاش اللسانی تفرّقات کی بنیاد پر الگ الگ سمجھتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندی، اُردو سے نکلی ہے۔ اسی طرح اگر اردو اور ہندی زبان کو ایک سمجھا جائے تو یہ دنیا کی چوتھی بڑی زبان ہے۔
اردو زبان باوجود دنیا کی نئی زبانوں میں سے ہونے اپنے پاس معیاری اور وسیع ذخیرہ ادب رکھتی ہے۔ خاص کر جنوبی ایشیائی زبانوں میں اردو اپنی شاعری کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔
Nice
ReplyDelete